Thursday, 16 February 2017

پاناما کیس کی سماعت21 فروری تک ملتوی ، نیب اور ایف بی آر کے سربراہ ذاتی طورپر سپریم کورٹ میں طلب

 سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے حوالے سے چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر کو ذاتی طور پرطلب کرتے ہوئے سماعت 211فروری (منگل) تک ملتوی کر دی ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگلی سماعت پر چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر حدیبیہ پیپر مل اور منی لانڈرنگ کس کا مکمل جائزہ لیکر عدالت آئیں ۔”چیئرمین نیب اور ایف بی آر آئندہ سماعت پر عدالت میں موجود ہوں “۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاملے پر نیب سے سوالات کریں گے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے آغاز میں حسن اور حسین نواز کے وکیل نے منروا کیساتھ سروسز کا ریکارڈ عدالت میں جمع کر اتے ہوئے موقف اپنایا کہ تمام دستاویزات گزشہ رات لندن سے منگوائی ہیںاور منروا کمپنی کو ادائیگیوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کر دیں ،5رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ حسن اور حسین نواز نے کب اور کتنے جوابات جمع کرائے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ہمارا وقت ضائع کیا جا رہا ہے ایک چونی کا کام نہیں ہوا۔
 جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے نیلسن اور نیسکول کا ڈائریکٹر کون تھا ؟جو دستاویزات آپ دیکھا رہے ہیں وہ آف شور کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے نام ہیں ، دستاویزات سے ثابت کریں کہ حسین نواز کمپنیاں چلا رہے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جولائی 2006ءمیں بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کیلئے حسین نواز گئے یا مریم نواز ؟ حسین نواز نے سرٹیفکیٹ منسوخ کرائے یا مریم نے اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے ، مقدمے کی نوعیت کیاہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے، آپ کہتے ہیں ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا ، کیس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں۔ جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ یہ دستاویز آخر آئی کہاں سے ؟حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد لینے کیلئے سرمایہ نہیں تھا ، ان کے پاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کیلئے سرمایہ کاری کہاں سے آئی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جائیداد قطری سامایہ کاری کے بدلے حسین نواز کو ملی، لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں ، دستاویز کون کہاں سے لایا کچھ علم نہیں تاہم مریم کے بینی فشل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کروائی گئی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم تقاریر کو نظر انداز کر تے ہیں تو قصور وار ہوتے ہیں ،ججز آتے جاتے رہتے ہیں ، بات اصولوں کی ہے جو ہمیشہ رہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمیشن بنا سکتے ہیں یا تحقیقات کیلئے متعلقہ اداروں کو معاملہ بھیج سکتے ہیں ، لیکن کہا جاتا ہے کہ ادارے کام نہیں کرتے تو پھر اب ہم کیا کریں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ راجا صاحب کیا دستاویزات نہ دینا آپ کی حکمت عملی ہے؟ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی حکمت عملی نہیں ہے ۔

حسن اور حسین نواز کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ فروری 2006ءسے جولائی 2006ءتک مریم نواز بطور ٹرسٹی شیئر ہولڈر رہیں اور جولائی میں منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے تاہم منرواکمپنی نے نیلسن اور نیسکول کے اپنے ڈائریکٹرز دیے اور 2014ءمیں شیئرز منروا سے ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے ،بیریئر سرٹیفکیٹس کی منسوخی سے مریم نواز کی بطور شیئرز ہولڈرز حیثیت ختم ہو گئی تاہم مریم نے بیریئر سرٹیفکیٹ بطور ٹرسٹی اپنے پاس رکھے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ شیئرز ٹرانسفر ہونے سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم ہو گئی ؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر مریم نواز زیر کفالت ثابت بھی ہوں تب بھی فلیٹس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتیں ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ حسین نواز کے پاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کیلئے سرمایہ کاری کوبھی دیکھنا ہے ، مریم اگر حسین نواز کے نمائندے کے طور پر کام کرتی تھیں تو اس دستاویز کو بھی دیکھنا ہے ۔ایرنیا کمپنی کی جانب سے معاہدہ کیا اور فیصل ٹوانہ کو بطور نمائندہ مقرر کیا تھا جو حسین نواز کی جا نب سے منروا کمپنی سے ڈیل کرتے تھے ۔

No comments:

Post a Comment